خودکشی یا قتل قسط نمبر 3
راحت کو پیش آنے والے حادثے کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے میں نے سکندر علی کو الگ بٹھا دیا اور تنہای میں فضل بی بی سے سوالات کرنے لگا
میں نے کہا فضل بی بی مجھے پتہ چلا ہے کہ تم نے اپنے بیٹے کی غیر موجودگی میں اپنے گھر کی بیٹھک کسی کو کراے پر دے رکھی تھی ؟ فضل بی بی نے کہا جی ہاں یہ بات سچ ہے ماسڑ یونس میرا کراے دار ہے
میں نے کہا وہ اس وقت کہاں ہے ؟ اس نے کہا صبح تو کارخانے گیا تھا وہیں ہو گا میں نے کہا اس کے کارخانے کا نام کیا ہے ؟ فضل بی بی کے جواب نے سجاول کے بیان کی تصدیق کر دی تھی میں نے پوچھا چھٹی کے بعد ماسڑ یونس کب تک کر گھر آ جاتا ہے
اس نے بتایا کہ عام طور پر پانچ بجے تک آ جاتا ہے پر آج وہ نہیں آے گا میں نے پوچھا اس کی کوی خاص وجہ؟
فضل بی بی نے وضاحت کرتے ہوے کہا کیونکہ آج ہفتے کا دن ہے کل اتوار کی چھٹی ہے ہفتے کے روز وہ کارخانے سے چھٹی کر نے کے بعد سیدھا اپنے پنڈ چلا جاتا ہے
چھٹی کا دن وہ اپنے پنڈ میں گزارتا ہے میں نے کہا اس کا مطلب ہے کہ وہ کل شام تک یہاں ٹے گا
فضل بی بی نے کہا نہیں جناب وہ کل بھی نہیں آے گا وہ اپنے پنڈ سے سوموار کو سیدھا کارخانے چلا جاتا ہے یہاں تو اب وہ پرسوں شام کو آے گا
میں نے سوال کیا فضل بی بی اچھی طرح سوچ کر بتاو جب آج صبح تم اپنے بیٹے کے ساتھ گھر سے روانہ ہوی تھی تو کیا اس وقت ماسڑ یونس گھر میں ہی تھا ؟
فضل بی بی نے کہا مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ ہمارے نکلنے سے کچھ دیر پہلے ہی گھر سے چلا گیا تھا
میں نے زرا مختلف انداز میں سوال کیا راحت کا تمارے ساتھ سلوک کیسا تھا ؟ اس نے سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھا میں نے کہا میرا مطلب ہے کہ تم دونوں کی آپس میں کوی ناراضگی تو نہیں تھی
وہ کانوں کو ھاتھ لگاتے ہوے بولی اللہ معاف کرے میں تو اسے اپنی بیٹی سمجھتی تھی اور راحت بھی میری بہت عزت کرتی تھی ہمارے درمیان آج تک کوی معمولی سا جھگڑا بھی نہیں ہوا تھا
میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوے کہا فضل بی بی جن لوگوں نے موقع پر پہنچ کر راحت کو باورچی خانے سے نکالا ہے ان کا بیان ہے کہ جب وہ وہاں پہنچے تو باورچی خانے کا دروازہ باہر سے بند تھا
اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ کسی نے اسے باہر سے بند کر دیا تھا تمہارے خیال میں ایسا کون کر سکتا ہے ؟
وہ الٹا سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی اور بولی یہ تو آپ نے عجیب بات بتای ہے میں نے کہا فضل بی بی یہ عجیب بات ہی نہیں بلکہ تشویش ناک بات بھی ہے
تمہاری بہو کو قتل کیا گیا ہے اور قاتل تک تم ہماری رہنمای کرو گی وہ بولی میری تو مت ہی ماری گٸ ہے میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں راحت کو بھلا کون قتل کر سکتا ہے ابھی صبح تو میں اسے بھلی چنگی چھوڑ کر گٸ ہوں
پھر وہ دو ہتڑ سینے پر مار کر دھای دینے والے انداز میں بولی ھاے وے میریا ربا یہ کیا ہو گیا میری جوان جہان بہو میری بچی !
میں نے تسلی آمیز لہجے میں کہا دیکھو فضل بی بی مجھے تم سے ہمدردی ہے مگر ہم بھی مجبور ہیں آخر قانونی تقاضے بھی تو پورے کرنے ہیں پچھ پرتیت تو کرنی پڑتی ہے وہ آنسو صاف کرتے ہوے بولی پوچھیں جی آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں
میں نے دانستہ نرم رویہ اختیار کر لیا تاکہ اسے بہلا پھسلا کر کوی کام کی بات اگلوا سکوں کیونکہ سکندر علی اور اس کی ماں کی ذات ابھی تک شک سے پاک نہیں تھی
میں نےپوچھا فضل بی بی تمہارا کراے دار کیسا آدمی ہے فضل بی بی نے کہا ماسڑ یونس بڑا ہی بیبا بندہ ہے جی!
میں نے کہا وہ کتنے عرصے سے تمارے گھر میں کراے دار کی حیثیت سے رہ رہا ہے ؟ فضل بی بی نے کہا اسے یہاں رہتے ہوے کوی دو سال ہو گیے ہیں
میں نے پوچھا ان دو سالوں میں تمہیں اس سے کوی شکایت تو نہیں ہوی ؟
اس نے کہا بلکل نہیں جناب وہ تو بلکل گھر کے ایک فرد کی طرح ہے اس نے کبھی بھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا
میں نے کہا فضل بی بی تم ایک ایک جوان عورت کے ساتھ اس گھر میں اکیلی رہ رہی تھی ایسی صورت میں کسی انجان اور چھڑے چھانٹ مرد کو کراے دار بنا لینا بڑا عجیب سا لگتا ہے کیا تمہیں کبھی خیال نہیں آیا کہ لوگ باتیں کریں گے اور تمارا بیٹا سکندر علی بھی اس بات کو ناپسند کر سکتا ہے ؟
وہ بولی لو دسو جی ! آپ بھی کیسی الٹی باتیں کرے کر رہے ہیں تھانے دار صاحب ہم عزت دار لوگ ہیں اور اپنے اچھے برے کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں اور پھر سکندر کوی مجھ سے باہر تھوڑا ہی ہے وہ مجھ پر بھروسہ کرتا ہے میں اس کی ماں ہوں وہ میری کسی بات کو نا پسند کیوں کرے گا
میں نے زرا سخت لہجے میں کہا تمہیں اگر اچھے برے کا خیال ہوتا ! وہ میری بات کو کاٹتے ہوے بولی آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ صاف صاف بات کریں نا !
میں نے کہا صاف صاف بات یہ ہے کہ اس گھر میں ایک قتل ہوا ہے اور قاتل کوی باہر کا آدمی نہیں
وہ بولی آپ یہ بار بار قتل کا کیا زکر کر رہے ہیں گھر کا کوی آدمی راحت کو کیسے قتل کر سکتا ہے وہ تو گھر میں اکیلی تھی
میں نے کہا وہ گھر میں اکیلی تھی اس نے خود کو باورچی خانے میں اس طرح بند کیا کہ جادو کے زور سے دروازے کی کنڈی لگای پھر اس نے خود کو آگ لگای اور بڑے آرام اور سکون سے جان دے دی
کوی بڑے سے بڑا بیوقوف بھی اس بات پر یقین نہیں کر سکتا ہے اب تم بتاو تم کیا کہتی ہو کیا ایسا ہونا ممکن ہے
وہ ہراساں نظروں سے مجھے دیکھنے لگی اور پھر بولی تھانے دار صاحب میں کیا کہہ سکتی ہوں جناب
ہم تو صبح کے گیے ہوے ابھی آپ کے سامنے ہی واپس آے ہیں میں نے کہا تماری غیر موجودگی میں بھی اس گھر میں کوی آ سکتا ہے اس نے کہا پر کون آ سکتا ہے کسی کو راحت سے بھلا کیا دشمنی ہو سکتی ہے ؟
میں نے کہا ماسڑ یونس کو تو کوی یہاں آنے سے نہیں روک سکتا نا وہ جلدی سے بولی وہ دن میں کبھی گھر نہیں آتا
دوپہر کا کھانا وہ ادھر کارخانے میں ہی کھاتا ہے میں نے کہا یہ بات ناممکن تو نہیں کہ آج وہ خلاف معمول یہاں آ گیا ہو آخر یہ اس کی رہاٸش گاہ ہے
وہ بولی پر ایسا پہلے تو کھبی نہیں ہوا میں نے کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ تمہارا کراے دار ماسڑ یونس چھپ چھپ کر راحت سے ملتا ملاتا رہتا تھا
فضل بی بی نے چونک کر میری طرف دیکھا اور بولی آپ کو یہ بات کسنے بتای ؟ میں اسے ڈانٹ کر کہا تم مجھ سے سوال نہ کرو صرف میرے سوالوں کے جواب دو
راحت اور ماسڑ کے درمیان کیا کھچڑی پک رہی تھی ؟
وہ ناگوار انداز میں بولی کسی نے آپ کے کان بھرے ہیں اور وہ اس مردود کے سوا اور کوی نہیں ہو سکتا
میں نے کہا کون مردود ؟
اس کے منہ سے مغلظات کا طوفان پھٹ پڑا
ٹٹ پینا مر جاناں وہی کانا سور اللہ کرے وہ کسی کی آی سے مرے اس کانے دجال نے تو ہر حد مکا دی ہے
میں سمجھ گیا کہ فضل بی بی کا اشارہ سجاول کی طرف ہے اس کے لہجے سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ سجاول کی طرف سے بھی بیٹھی تھی
میں نے اسے مزید کریدنے کی خاطر کہا تم یہ گالیاں کس کو سنا رہی ہو فضل بی بی ؟
وہ نفرت آمیز لہجے میں بولی جس شیطان نے آپ کو غلط سلط پٹیاں پڑھای ہیں یہی خبیث میری راحت کو بدنام کرنے پر تلا بیٹھا تھا
میں نے کہا کسی کا نام بھی لو گی یا یونہی اپنی زبان گندی کرتی رہو گی
اس نے کہا آپ ٹھیک کہتے ہیں تھانے دار صاحب اس کا نام لینے واقعی زبان گندی ہو جاے گی وہ بھڑک کر بولی اس نے تو میری راحت کو تباہ کرنے میں کوی کسر نہیں چھوڑی تھی میرے بیٹے کے واپس آتے ہی اس کے کان بھر دیے تھے وہ تو بھلا ہو میرے لال کا کہ اس نے میرے سمجھانے پر عقل سے کام لیا اور بات اس کی سمجھ میں آ گٸ
ورنہ تو وہ کل ہی راحت کو فارغ کر دینے کا فیصلہ کر چکا تھا وہ کمینہ خود کو سکندر کا دوست کہتا ہے اور دوست کا اجاڑتے ہوے اسے زرا بھی شرم نہ آی
کڑی سے کڑی مل رہی تھی اور بات آگے بڑھ رہی تھی سجاول کی شخصیت کا ایک نیا پہلو میرے سامنے آ رہا تھا
میں نے فضل بی بی سے کہا لیکن سجاول کو راحت سے ایسی کون سی دشمنی تھی جو وہ ایسی حرکتیں کرتا پھرتا ہے
فضل بی بی نے انکشاف زدہ لہجے میں کہا کیونکہ میری بہو راحت نے اس کانے کے منہ پر تھوک دیا تھا
( جاری ہے )