خودکشی یا قتل قسط نمبر 9
حوالدار کرم داد دوسری صبح واپس آیا تھا اس کے ساتھ ماسڑ یونس کا باپ ایوب علی اور چھوٹا بھای یوسف آیا تھا ان باپ بیٹے کے بیان کے مطابق ماسڑ یونس تو گاوں میں پہنچا ہی نہیں تھا
اور وہ خود اس وجہ سے خاصے پریشان تھے حالانکہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا یونس ہفتے کی رات کو گھر پہنچتا تھا اور پیر کی صبح واپس چلا جاتا تھا
وہ اس کی خیر خبر معلوم کرنے آنے ہی والے تھے کہ حوالدار وہاں پہنچ گیا اور اب وہ میرےسامنے موجود تھے
میں ماسڑ یونس کے باپ ایوب علی سے پوچھا کیا پہلے کبھی ایسا ہوا ہے کہ یونس بغیر بتاے کہیں چلا گیا ہو ؟
اس نے نفی میں جواب دیا پھر کہا میں تو خود پریشان ہوں میں ہی کیا اس کی ماں اور چھوٹی بہنیں بھی دو راتوں سے سوی نہیں ہیں
میں نے ایوب علی کو ساری صورت حال سے آگا ہ کیا پوری بات سننے کے بعد وہ مزید پریشان ہو گیا
میں نے اس سے کہا تمہارے بیٹے نے نہایت ہی سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے ایک لاش کی بے حرمتی کی پھر ایک شادی شدہ عورت کو اغوا کر لیا
ایوب علی نے کہا وہ ایسا نہیں کر سکتا جناب وہ تو بڑا سمجھ دار بچہ ہے میں نے اس سے کہا اکثر والدین کا اپنی اولاد کے بارے میں یہی خیال ہوتا ہے
بعض اوقات تو والدین آنکھوں دیکھ کر بھی یقین نہیں کرتے ! وہ بولا پر میرا بیٹا تو ایسا نہیں تھا میں نے زرا غصہ دکھاتے ہوے کہا اس نے تو انتہای احسان فراموشی مظاہرہ کیا ہے فضل بی بی اسے اپنے بیٹے کی طرح چاہتی تھی
اور تماہارے بیٹے نے اپنے محسن کے گھر ہی ڈاکہ ڈال دیا
اب وہ بچ نہیں سکے گا
ایک بات میں آپ کو بتانا بھول گیا میں نے گزشتہ رات ہی سکندر علی رہا کر دیا تھا تاہم سجاول ابھی تک حوالات میں ہی تھا سکندر علی نے میرا شکریہ ادا کرتے ہوے کہا کہ میں اس کی بیوی کی تلاش میں کوی سرگرمی نہ دکھاوں بلکہ اس کیس پر لعنت بھیج کر فاٸل داخل دفتر کر دوں
صورت حال کی وضاحت کے بعد سکندر علی کو راحت کی صورت سے بھی نفرت ہو گٸ تھی اب وہ اسے کسی بھی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں تھا
اس کا فیصلہ اگرچہ جذباتی تھا مگر مبنی بر حقیقت تھا مگر میں اس کی بات مان کر اس طرف سے چشم پوشی نہیں کر سکتا تھا مجھے تو ہر حال میں قانونی تقاضے پورے کرنے تھے
میں نے ماسڑ یونس کے باپ سے مزید کچھ دیر کی پوچھ تاچھ کے بعد اسے جانے دیا جاتے جاتے میں نے اسے تاکید کر دی تھی کہ جیسے ہی ماسڑ یونس گھر آے تو تھانے میں اطلاع کر دے تاہم مجھے اس کی ایک فیصد بھی امید نہیں تھی کہ ایسی صورت میں ماسڑ یونس اپنے آبای گھر کا رخ کرتا ! پھر بھی میں نے حوالدار کرم داد سے کہہ دیا کہ وہ دو سادہ لباس اھل کاروں کو یونس کے گاوں کے داخلی اور خارجی راستے پر نظر رکھنے کی تاکید کے ساتھ تعینات کر دے یونس کے باپ نے یونس کی ایک تصویر مہیا کر دی تھی جسے دوسرے روز میں نے ایک ماہر فوٹو گرافر کو دے کر اس کے کٸ پرنٹ تیار کروا لیے تھے
یونس کی نگرانی کرنے والے اھل کاروں کو میں نے ایک ایک فوٹو دے دیا تھا اس کے بعد میں نے اپنے تھانے کے عملے کو بھی فوٹو فراہم کر کے یہ ہدایت دے دی تھی کہ وہ ایسی صورت و شکل کے شخص کو جہاں بھی دیکھیں فورأ گرفتار کر کے تھانے لے آییں
ویسے مجھے امید تھی کہ وہ کہیں آس پاس مشکل سے ہی پایا جاے گا ہو سکتا تھا اس نے راحت کے ساتھ کسی دوسرے شہر میں جا کر اپنی نٸی دنیا آباد کر لی ہو !
اگلے دن میں نے سجاول کی منت سماجت پر اسے بھی چھوڑ دیا تاہم یہ تاکید کر دی کہ وہ اپنے علاقے سے باہر نہ جاے اور اگر مجورأ ایسا کرنا بھی پڑے تو پہلے تھانے میں اطلاع کر دے اس نے وعدہ کیا کہ وہ اس بات کی پابندی کرے گا میں نے اسے بتایا کہ اس کی ذات ابھی شک سے پاک نہیں ہوی تھی
پھر کچھ دن یونہی گزر گیے اس کیس میں کوی نٸی پیش رفت نہ ہوی اور نہ ہی راحت اور ماسڑ یونس کی کوی خبر ملی پھر ایک روز مجھے اطلاع ملی کہ میرے عملے کے آدمیوں نے اس تانگے والے کا سراغ لگا لیا ہے جس نے ماسڑ یونس کو اور ایک برقعہ پوش عورت کو لاری اڈے پہنچایا تھا اس سے ایک بات یہ بھی ثابت ہوی کہ راحت ماسڑ یونس کے ساتھ ہی فرار ہوی تھی
تانگے والے کا نام رفیق تھا وہ ایک صحت مند نوجوان تھا میں اے ایس آی کو لے کر تانگہ اسٹینڈ پہنچ گیا
رفیق عرف فیکا اسٹینڈ پر موجود تھا اور وہ وہاں سے تانگہ لے کر نکلنے ہی والا تھا ہمیں دیکھ کر رک گیا اور بولا چلیں جناب آپ کو بھی لے چلتا ہوں کہاں تک جاییں گے
اس وقت اس کے تانگے میں دو سواریاں موجود تھیں اور دونوں ہی مردانہ سواریاں تھیں
میں نے سواریوں سے کہا کہ وہ کسی دوسرے تانگے میں چلے جاییں وہ دونوں اتر گیے تو ہم اس کے تانگے میں سوار ہو گیے
میں نے فیکے سےکہا پہوان جی مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں اس کام کے لے تمہارا تانگہ ٹھیک رہے گا یا تھانے چلیں ؟
فیکا زرا بھی نہ گھبرایا مسکرا بولا جو حکم سرکار !
ویسے بات کیا ہے ؟
میں نے جیب سے یونس کی تصویر نکال کر اسے دکھاتےہوے کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ کچھ دن پہلے تم نے اس شخص کو لاری اڈے پہنچایا تھا
اس نے تصویر پر نظر پڑتے ہی کہا یہ فوٹو میں پہلےبھی دیکھ چکا ہوں ایک سنتری بادشاہ پہلے بھی مجھ سے اس شخص کے بارے میں پوچھ گیچھ کر چکے ہیں
میں نے پوچھا تمہیں اچھی طرح یاد ہے کہ تم نے اسی شخص کو اپنے تانگے میں بٹھایا تھا ؟ کیا تم اس کو جانتے ہو ؟ یا اس سے پہلے بھی اس شخص سے مل چکے ہو ؟
فیکے نے کہا آہو جی مجھے چنگی طرح یاد ہے اس کے ساتھ ایک عورت بھی تھی جس نے برقعہ پہن رکھا تھا
اس شخص نے مجھے جلد از جلد لاری اڈے پہنچانے کا کہا تھا میں نے کہا تھا کہ میری سواریاں پوری ہوں گی تو ہی میں جاوں گا مگر اس نے کہا کہ تم ہمیں لے چلو میں تمہیں سالم تانگے کا کرایہ دوں گا
پھر میں نے انھیں لاری اڈے پہنچا دیا تو اس نے مجھے سالم تانگے کے کراے سے بھی زیادہ پیسے دیے تھے کیونکہ اس نے مجھے ایک بڑا نوٹ پکڑا دیا تھا اور میرے پاس اس وقت کھلے پیسے نہیں تھے اور وہ بقایا لیے بغیر چلا گیا تھا
اس وجہ سے اس کا چہرہ کٸ مجھے یاد رہ گیا تھا سنتری نے مجھے فوٹو دکھایا تو میں اسے فورأ پہچان گیا
میں نے فیکے سے کہا چلو اب ہمیں بھی وہیں لے چلو جہاں ان دونوں کو پہنچایا تھا
فیکے نے کہا تو کیا آپ کو کو بھی لاری اڈے لے چلوں
اے ایس آی نے اسے جھڑکا اوے تھانے دار صاحب کوی فارسی بول رہے ہیں جو تجھے سمجھ نہیں آی چل ہمیں بھی وہیں لے چلو جہاں اپنے رشتے داروں کو اتارا تھا
فیکا اس کے بعد کچھ نہ بولا اور چپ چاپ ہمیں لاری اڈے پہنچا دیا اس چھوٹے سے لاری اڈے سے بس دو چار روٹ کی ہی بسیں چلتی تھیں ان میں بھی بعض روٹ کی صرف ایک ہی بس ہوتی تھی جو دن بھر میں زیادہ سے زیادہ سے ایک دو پھیرے ہی لگا پاتی تھی
اس کے باوجود ہمیں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا ہم ایک ایک بس کے کنڈیکٹر اور ڈراٸیور کو ماسٹر یونس کی تصویر دکھا کر پوچھتے رہے کہ فلاں دن وہ ان کی بس سوار تو نہیں ہوا
تقریبأ آدھے پونے گھنٹے کی پوچھ تاچھ کے بعد ہمیں کامیابی مل ہی گٸ ایک بس کے کنڈیکٹر نے یونس کی تصویر دیکھ کر خیال ظاہر کیا کہ اسے یاد پڑتا ہے کہ وہ اس کی بس میں بیٹھا تھا اور اس کے ساتھ ایک برقعہ پوش خاتون بھی تھی
یہ بہت اہم اطلاع تھی میں نے کنڈیکٹر سے کہا پھر تو تہمیں یہ بھی یاد ہو گا کہ وہ دونوں کہاں اترے تھے
کنڈیکٹر نے کہا اچھی طرح یاد ہے جی وہ دونوں ایمن آباد اترے تھے
اس وقت دن کا ڈیرھ بج رہا تھا میں نے کنڈیکٹر سے پوچھا تمہاری بس کتنے بجے اڈے سے نکلے گی وہ بولا ابھی تو آے ہیں جناب اب کھانا شانا کھا کر ہی نکلیں گے
میں نے کنڈیکٹر سے کہا جب تک میں نہ آوں وہ اڈے سے بس نہ نکالے میں نے اسے کہا مجھے نہایت ہی ضروریکام سے جانا ہے اس لیے مجھے لیتے ہوے جاییں
میں نے بس کا نمبر نوٹ کیا اور اے ایس آی کے ساتھ واپس تھانے آ گیا
واپس تھانے آنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو کھانا کھا کر تازہ دم ہو جاوں دوسرا میری غیر موجودگی میں اے ایس آی کا تھانے میں رہنا بہت ضروری تھا
مجھے جانے وہاں کتنی دیر لگ جاتی کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا میں نے حوالدار کرم داد کو ساتھ لیا اور لاری اڈے پہنچ گیا جب بس نے ہمیں ایمن آباد اتارا تو دن کے چار بج رہے تھے ہم نے اپنی تفتیش کا آغاز دکان داروں سے پوچھ گچھ شروع کر کے کیا سب سے پہلے ہم سایکلوں والی ایک میں چلے گیے
ہم دونوں اس وقت سادہ لباس میں تھے دکان کے باہر ایک قطار میں کچھ ساٸکلیں کھڑی تھیں ان کے قریب ہی ایک شخص ایک ساٸکل کھولے مرمت کر رہا تھا
ساٸیکل مکینک بھاری تن و توش کا مالک تھا ہم اس کے قریب پہنچے تو اس نے نگاہ اٹھا کر ہماری طرف دیکھا اور پوچھا ساٸیکل چاہیے ؟
حوالدار نے کہا نہیں چاچا ہمیں ساٸیکل نہیں بلکہ تم سے ایک بندے کے متعلق پوچھنا ہے
وہ عجیب سے لہجے میں بولا بندہ کون بندہ ؟ اور اس کے متعلق کیا پوچھنا ہے ؟
میں نے جیب سے ماسڑ یونس کی تصویر نکال کر اس کے سامنے کر دی اور پوچھا اسے پہچانتے ہو چاچا ؟
اس نے تصویر کی بجاے گھور کر مجھ کو دیکھا اور غصے میں بولا یہ چاچا چا چا کیا لگا رکھی ہے تم لوگوں نے !
میرا نام ابراہیم ہے
مجھے تاو تو بہت آیا مگر میں غصے کو پی گیا اور آرام سے کہا ابراہیم صاحب آپ نے گزشتہ کچھ دنوں میں اس شخص کو کہیں دیکھا ہے ؟
اس نے میرے ھاتھ سے تصویر لے کر اس کا بغور جاٸزہ لیا اور بولا آدمی تویہ باہر کا لگتا ہے اس علاقے کا رہنے والا تو نہیں ہے یہاں کے تو بچے بچے سے میں واقف ہوں
( جاری ہے )