![]() |
ہمزاد دوسری آخری قسط |
بہر حال میں شہر کیسے پہنچا مجھے کچھ معلوم نہیں ۔ اسٹیشن کے پاس میں میرے دوست کا کواٹر تھا ۔ مکان فروخت کرنے کے بعد میں کچھ دن اس کے ہمراہ رہا تھا وہ غیر شادی شدہ تھا۔ اب بھی اس نے مجھے خوش آمد کہا بلکہ یہ خوشخبری بھی سنائی۔ کہ وہ میرے لئے ریلوے کے محکمے میں نوکری کا بندو بست کر چکا ہے۔ مجھے اب ان باتوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی تھی۔ لیکن محتاج
بن کر رہنا بھی قبول نہیں تھا۔ سو دوسرے دن کا غذات کے ہمراہ دفتر جا پہنچا۔ جن دنوں کی میں بات کر رہا ہوں ان دنوں نوکری ملنا کچھ دشوار نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے جلد ہی کلرک کی نوکری مجھے مل گئی۔ میں نے پھوپھی کو مختصر خط لکھا۔ جس میں اپنی نوکری کے علاوہ کواٹر ملنے کی اطلاع بھی دے دی۔ تاکہ نین تارا کے متعلق اطلاعات موصول ہوتی رہیں۔ لیکن خط کا جواب موصول نہیں ہوا۔
اور میں سب کچھ بھلانے کی جدوجہد میں کام میں مصروف ہوتا چلا گیا ۔ ایک مہینہ یوں ہی گزر گیا ۔ نین تارا کو بھلانا آسان نہیں تھا۔ میں جتنا اسے بھولنے کی کوششیں کرتا ۔ وہ اتنا ہی شدت کے ساتھ مجھے یاد آتی تھی۔ ایک دن میں دفتر میں کام ختم کرنے کے بعد تھکا ہارا گھر جانے کے لئے نکلنے والا تھا۔ کہ ڈاکیہ کمرے میں داخل ہوا۔ اور چٹھی میرے ہاتھوں میں تھما کر باہر نکل گیا میں نے حیرت بھری نگاہوں سے بھیجنے والے کا نام پڑھا۔ وہاں پھوپھا کا نام تحریر تھا۔ کانپتے ہاتھوں کے ساتھ میں نے خط پڑھنا شروع کر دیا ۔ ضبط کے مختصر مضمون میں صرف اتنا لکھا تھا ۔ کہ تمہارے جانے کے بعد سے اب تک نین تارا کی طبیعت سنبھل نہیں پائی ۔ شاید ایسا میرے غلط فیصلے کی بناء پر ہوا ہے۔ تم فورا سعید آباد آنے کی کوششیں کرو ۔ میرے خیال میں تمہیں قریب پاکر نین تارا کی طبیعت سنبھل جائے گی۔ تمہاری پھو پھی کا بھی یہی خیال ہے۔
میں نے حیرت بھری نگاہوں سے خط کا مضمون پڑھا۔ پھر ایک ہفتے کی چھٹی کی درخواست لکھ کر میز پر رکھی ۔ اور گھر کی جانب چل دیا۔ میں نے مختصر سامان چیک کیا۔ اور دوسرے دن ٹرین پکڑ کر سعید آباد کا رخ کیا۔ ایک دفعہ پھر امید کا چراغ جل اٹھا۔ نین تارا کی شادی نہیں ہو پائی تھی۔ اور پھوپھا کا مجھے خط لکھنا بھی میرے حق میں جاتا تھا۔ سوچوں کے ہجوم کے دوران سفر جلد ہی گذر گیا۔ جب میں نے سعید آباد کے اسٹیشن پر قدم رکھا۔ تب اس دفعہ پھوپھا اور پھو پھی کو اپنا منتظر پایا اسٹیشن سے باہر گھوڑا گاڑی بھی موجود تھی۔ سامان گھوڑاگاڑی میں رکھنے کے بعد سعید آباد تک کا سفر خاموشی کی نظر ہوا۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد میں نے بے تاب قدموں کے ساتھ نین تارا کے کمرے کا رخ کیا۔ نین تارا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی ۔ اس کی آنکھیں چوپٹ کھلی ہوئیں تھیں ۔ اور جسم سوکھ کر کانٹا ہورہا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر مجھے دیکھتے ہی وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ پھوپھا اور پھو پھی کی آنکھوں میں تعجب کا عنصر سمایا تھا۔ نین تارا نے میرے لئے چائے بنائی ۔ اور ہم خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔ میں نے انہیں اپنی نوکری کے متعلق بتایا۔ کواٹر ملنے کی نوید سنائی۔ مجھے یقین تھا کہ اب پھوپھا کے سر سے جاگیردار کا بھوت اتر چکا ہوگا ۔ شاید مناسب موقع محل دیکھ کر وہ خود ہی میرے ساتھ بات چیت کریں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دو دن انہوں نے اس موضوع پر بالکل بات چیت نہیں کی ۔ نین تارا مکمل طور پر صحت یاب ہو چکی تھی ۔ خوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ تیسرے دن رات کو کھانے کے بعد پھوپھا نے بات کا آغاز کچھ یوں کیا۔
آج جا گیر دار دکان پر آیا تھا ۔ وہ اب جلد از جلد شادی کا تقاضا کر رہا ہے۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی ہماری تیاریاں نا ہونے کے برابر ہیں۔ پھر میرے خیال کے مطابق نین تارا ابھی تک مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو سکی ۔ جاگیردار کا اصرار ہے کہ ایک دو دن کے اندر اسے تاریخ دے دی جائے ۔ میرے خیال میں میں اس کے اصرار کے سامنے مزید نہیں رک پاؤنگا۔ تاریخ آج کی ہو یا پھر کل کی۔ اس سے فرق نہیں پڑتا۔ بیاہ تو کرنا ہی ہے۔ سوکل میں اسے جواب دے دونگا ۔ میں اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ کاروبار کا تقاضا ابھی بھی میری محبت کے درمیان حائل تھا ۔ میں دوبارہ زندگی سے بدظن ہو گیا ۔ رات میں نے کڑھتے ہوئے گزاری اور صبح منہ اندھیرے سامان پیک کر کے اسٹیشن کی جانب چل دیا۔ پھوپھی کے نام مختصر تحریر چھوڑی تھی۔ کہ مجھے اچانک ہی دفتر والوں کی جانب سے تار موصول ہوا ہے۔ جس کی بدولت مجھے بتائے بغیر جانا پڑ رہا ہے۔
آج پھر آسمان بادلوں سے بھرا ہوا تھا۔ اور بوندا باندی کا آغاز تھا اسٹیشن کی مختصر عمارت حسب معمول سنسان پڑی تھی۔ میں بینچ پر بیٹھ کر گاڑی کا انتظار کرنے لگا ۔ بوندا باندی کی شدت میں اضافہ ہورہا تھا۔ دور کہیں تڑاخ کی آواز کے ساتھ بجلی گری۔ پھر انجن کی سیٹی کی آواز سنائی دی۔ میں نے لائینوں کی جانب دیکھا۔ پہاڑوں کے پاس گاڑی کی روشنیاں دکھائی دے رہیں تھیں۔
اچانک مجھے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ سیاہ برقعے میں ملبوس ایک لڑکی اسٹیشن کی عمارت سے نکل کر میری جانب چلی آرہی تھی گھنٹی کی آواز سنائی دی۔ اس کے ساتھ ہی سگنل ڈاؤن ہو گیا ۔ لڑکی میرے قریب پہنچ کر رک گئی ۔ میں نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔ مجھے اس کا یوں اپنے قریب کھڑے ہونے کا مقصد سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ اس نے جھٹکے کے ساتھ اپنے چہرے پر سے برقعہ اتار دیا میں سکتے کی صورت میں اپنے سامنے کھڑی نین تارا کو دیکھنے لگا۔ میری زبان گنگ ہوئی تھی۔ ٹرین اسٹیشن میں داخل ہو گئی ۔ اس کے شور کی آواز سے میں ہڑ بڑا کر حقیقت کی دنیا میں واپس آگیا۔
نین تارا کسی پتھر کی مورتی کی مانند میرے سامنے کھڑی تھی ۔ مجھے ایسا محسوس ہوا ۔ جیسے وہ سانس بھی نہ لے رہی ہو۔ اس کی نگاہیں میرے چہرے پر مرتکز تھیں۔ گاڑی اسٹیشن کی حدود میں داخل ہو کر رک گئی مسافروں کا شور سنائی دینے لگا۔
تم یہاں کیوں آئی ہو؟“ میرے حلق سے
پھنسی پھنسی آواز نکلی۔
آپ کے ہمراہ جانے کے لئے میں ابا کی خود غرضی کی بھینٹ چڑھنا نہیں چاہتی ہوں ۔ اپنی دکان کو بچانے کے لئے وہ اپنی اکلوتی لڑکی کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کر پائے۔ تب میں بھلا کیوں ان کی خاطر اپنی محبت کی قربانی دینے کا اہتمام کروں آپ جہاں جائیں گے میں بھی ساتھ جاؤں گی۔ آپ جیسا رکھیں گے میں خوشی کے ساتھ ساتھ رہوں گی۔“
لیکن پھوپھا اور پھوپھی میرے متعلق غلط رائے قائم کریں گے۔ نہیں نین تارا میں ایسا نہیں کر سکتا۔
تم واپس چلی جاؤ۔ میں پھوپھا کی طرح خود غرض نہیں ہوں ۔ اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کی خوشیوں کو قربان کرنا میرا شیوہ نہیں ہے۔ میں انہیں صدمہ نہیں دینا چاہتا۔ گاڑی نے روانگی کی وصل دی۔ تب نین تارا ہر بڑا کر بولی۔
گاڑی روانہ ہونے والی ہے ۔ آپ دیر نہ کریں۔ رہی اہا اور امی کی بات تو میں وہاں اپنا ہمزاد چھوڑ آئی ہوں۔ انہیں میرے فرار کے متعلق رتی برابر بھی شک نہیں ہوگا ۔ میں نے حیرت بھری نگاہوں سے نین تارا کی جانب دیکھا۔ لیکن اس نے مجھے ہاتھ سے تھام لیا۔ پھر کھینچتے ہوئے ٹرین کی جانب چل دی۔ اب مزید صبر کرنا میرے اختیار سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔ میں نے بھی بھاگتے ہوئے نین تارا کا ساتھ دینے میں بہتری جانی۔
ایک ہفتے کے بعد پھوپھا کا تار موصول ہوا ۔
لکھا تھا۔
برخوردار ! تمہارے خاموشی سے چلے جانے کے بعد نین تارا کی طبیعت دوبارہ خراب ہوگئی۔ ہم نے بے شمار حکیموں کا علاج کروایا۔ ساتھ والے گاؤں میں موجود ڈاکٹر سے بھی رجوع کیا۔ لیکن بات نہ بن سکی۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ جسم میں خون بنانے والے خلیوں کی مقدار بہت تیزی کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔ لڑکی کو فورا شہر لے جایا جائے۔ لیکن شہر جانے سے پہلے ہی نین تارا نے دم توڑ دیا کل اس کا سوئم ہے ہو سکے تو گاؤں کا چکر لگا لینا۔ تمہاری پھوپھی کی طبیعت بھی ناساز ہے۔
میں نے تار کو پڑھنے کے بعد ایک جانب رکھ دیا۔ اور مطمئن نگاہوں سے دلہن بنی نین تارا کی جانب دیکھا ۔ اور اطمینان کا سانس لینے کے بعد کمرے کا دروازہ مضبوطی کے ساتھ بند کر دیا۔
"Agar aapko yeh kahani pasand aaye aur aap isay apne channel, website ya kisi aur platform par upload karna chahtay hain to barah-e-karam hum se raabta karein. Yeh kahani humari milkiyat hai aur isay munasib adaigi par hasil kiya ja sakta hai. Baghair ijazat is kahani ka istemal ya chori karna qanooni tor par jurm hai. Humein umeed hai ke aap ijazat aur ehtiraam ka rasta ikhtiyar karenge. Shukriya!"
ہمزاد, خوفناک کہانی, اردو ہارر کہانی, Jinn Stories, Horror Stories in Urdu, Suspense Story, Horror Romance, Urdu Novel, محبت اور ہمزاد, Urdu Anokhe Khaniyan, Horror Urdu Kahani, Jasoosi Kahani, True Horror Story, Supernatural, Mysterious Girl, Horror Thriller, Urdu Fiction, Paranormal, Haunted Love Story, Urdu Kahani 2025, Urdu Stories, Jin Kahani, Horror Drama, Urdu Suspense Kahani, روحانی کہانی, Urdu Scary Stories