![]() |
ایک لڑکا جس نے محبت میں سب کچھ قربان کر دیا، مگر اسے جو ملا وہ ایک راز تھا، ایک خوف... ایک ہمزاد! |
ہمزاد
دوشیزہ اپنے منگیتر کے ساتھ شہر جاچکی تھی لیکن گائوں والوں نے اس دوشیزہ کی موت کی تصدیق کردی که دوشیزه اپنی طبعی موت مری ہے ، ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ جسم میں خون بنانے والے خلیوں کی مقدار بہت تیزی سے کم ھوتی جارہی ہے۔
رگ وپے میں سنسنی پھیلاتی ایک اچھوتی انوکھی دلفریب دلکش اور پر بہار کہانی
گاڑی کی وصل کی آواز سے ماحول گونج اٹھا۔ میں نے چونک کر کھڑکی سے باہر نگاہ دوڑائی۔ گاڑی اسٹیشن کی حدود میں داخل ہو رہی تھی ۔ بادلوں کی بدولت کافی حد تک اندھیرا پھیلنا شروع ہو گیا تھا ۔ حالانکہ ابھی صرف سہ پہر کے چار بجے تھے۔ میں نے جسم پر موجود چادر کو اچھی طرح جسم کے گرد لپیٹا ۔ اور بیگ اٹھا کر دروازے کی جانب چل دیا ۔
سعید اباد کا اسٹیشن زیادہ بڑا نہیں تھا ۔ یہاں گاڑیاں مختصر وقت کے لئے قیام کرتی تھیں ۔ اس لئے اسٹیشن پر اترنے والا واحد مسافر میں ہی تھا۔ اسٹیشن پر قدم رکھتے ہی ماحول بادلوں کی گھن گرج سے گونج اٹھا۔ اس کے ساتھ ہی طوفانی بارش کا آغاز ہو گیا ۔ میں بھاگ کر ریلوے -اسٹیشن کی عمارت سے باہر نکلتا چلا گیا ۔ سعید آباد ایک پہاڑی ہل اسٹیشن کا درجہ رکھتا تھا۔ سرسبز پہاڑوں سے
گھرا ہوا سعید آباد ہمیشہ سے میری یادوں کا مرکز رہا۔ کیونکہ یہ میری ہونے والی منگیتر کا گاؤں تھا۔ نین تارا جسے میں نے گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران نہیں دیکھا تھا۔ لیکن پھر بھی میری سوچوں کا مرکز وہی رہی تھی۔
"اوئے مجھے درختوں کے جھنڈ کے درمیان سے مردانہ آواز سنائی دی۔ میں نے چونک کر درختوں کی جانب دیکھا۔ گھوڑا گاڑی پر بیٹھا کو چوان چلا چلا کر مجھے اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوششیں کر رہا تھا۔ بارش کا طوفان مزید سے مزید تر بڑھنے لگا تھا۔ میرے کپڑے اور چادر پانی سے شرابور ہو رہے تھے۔ میں نے چمڑے کے بیگ کو سنبھالا۔ اور دوڑتا ہوا گھوڑا گاڑی کے اندر جا بیٹھا۔ یہاں اطمینان و عافیت کا وہ عالم موجود تھا۔ جیسا مجھے نین تارا کے متعلق سوچتے ہوئے محسوس ہوتا تھا۔ کو چوان نے مسکراتے ہوئے میرے بھیگتے ہوئے وجود کی جانب دیکھا۔ پھر سوالیہ لہجے میں پوچھا۔ یقینا تم نے سعید آباد جانا ہو گا؟ یہاں سے
قریب ترین گاؤں میں ہے۔“
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اور بھیگی ہوئی چادر کو اتار کر ایک جانب رکھے ہوئے چمڑے کے بیک پر پھیلا دیا ۔ کوچوان نے گھوڑا گاڑی کی باگ کھینچی ۔ گھوڑا ہنہناتے ہوئے سڑک کی جانب چل دیا۔ مجھے ایک ہفتہ پہلے کی وہ ملاقات یاد آنے لگی۔ والد صاحب بستر مرگ پر موجود تھے۔ اور ان کے آخری الفاظ یہ تھے۔
میرے بچے سعید آباد میں تمہاری پھوپھی رہتی ہے۔ میرے مرنے کے بعد وہیں چلے جاتا۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے ۔ کہ نین تارا بچپن سے تمہارے ساتھ منسوب کر دی گئی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ طاہرہ کو اپنا وعدہ بھولا نہیں ہوگا ۔ علاوہ ازیں وہ تمہارے مستقبل کے متعلق بھی تمہاری مددگار ثابت ہوگی طاہرہ کے شوہر کی گاؤں سے کچھ دور کریانے کی دکان ہے۔ دکان بہت اچھی چلتی ہے۔ اس لئے ان کی گزر بسر بھی بہترین ہی رہی ہے۔“
کہیں قریب تڑاخ کی آواز کے ساتھ بجلی گری
اور میں چونک کر حقیقت کی دنیا میں واپس چلا آیا۔ گھوڑا گاڑی پہاڑی علاقے میں داخل ہو چکی تھی ۔ سوچوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ دوبارہ چل نکلا ۔ والد صاحب کی وفات کے بعد میرے لئے دو راستے باقی بچے تھے۔ ماموں کے پاس کویت جانے کا راستہ یا پھر اپنی سوچوں کے محسور نین تارا کے پاس جانے کا ابدی راستہ یہ وہ راستہ تھا ۔ جہاں تک جانے کے لئے میں ہمیشہ بے قرار رہا تھا۔ والد صاحب کے سوئم کے بعد مینے ماموں کو خط لکھا۔ اور اپنی آمد کے متعلق آگاہی دی ۔ تب ان کا محبت بھرا جواب موصول ہوا ۔ جس کا خلاصہ یوں تھا۔
برخوردار میں تمہاری آمد کا منتظر ہوں ۔ اگر مالی معاونت کی ضرورت ہو تو اگلے خط میں لکھ دینا میں رقم بھجوا دونگا۔“
مجھے رقم کی ضرورت نہیں تھی ۔ والد صاحب کا بنایا ہوا گھر اونے پونے داموں بیچنے کے بعد میری جیب نوٹوں کے بوجھ سے دوہری ہوئی چلی جارہی تھی۔ اب دل میں ایک ہی خواہش باقی بچی تھی ۔ نین تارا سے ملاقات اور پھوپھی سے تفصیلی بات چیت، میں نین تارا کو اپنانے سے پہلے اپنے اچھے مستقبل کا آغاز کر دینا چاہتا تھا۔ میری سعید آباد آمد کا مقصد یہی تھا۔ کہ میں پھو پھی کو پرانا وعدہ یاد دلا کر اس وعدے کو حتمی صورت دینا چاہتا تھا ۔ تا کہ مطمئن ہو کر دیار غیر میں اپنے مستقبل کا آغاز کر سکوں ۔ گھوڑا گاڑی جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔ گاؤں قریب آچکا تھا۔ اور حیرت کی بات یہ تھی کہ گھوڑا گاڑی پھوپھا کی صدیوں پرانی کریانے کی دکان کے بالکل سامنے رکی کھڑی تھی ۔ دکان کی حالت میں رتی برابر بھی تبدیلی واقع نہیں ہو پائی تھی۔ ویسے کی ویسی ہی تھی ۔ جیسی آٹھ سال پہلے تھی۔ مجھے پھوپھا کی سوچ کے متعلق سوچتے ہوئے ہنسی آگئی ۔ ان کا ہمیشہ سے یہی کہنا تھا۔
جب بھینس اچھا خاصا دودھ دے رہی ہو تب اسے سجانے سنوارنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ صرف پیسے
کا ضیاع ہو سکتا ہے۔ آپ کے منافے میں اضافے کا باعث نہیں بن سکتا ۔ ان کی کرائے کی دوکان کا مالک گاؤں کا جاگیردار تھا ۔ اس لئے پھوپھا کی سوچ کے مطابق کرائے کی دکان پر پیسہ لگانا وقت اور پیسے کے ضیاء کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔ اس لئے سوچ کے لحاظ سے ان کی دکان میں تبدیلی واقع نہیں ہو پائی تھی۔ بہر کیف دوکان کے باہر دو تین گاہک موجود تھے۔ ان کے فارغ ہونے کے بعد پھو پھانے نظر اٹھا کر سوالیہ نگاہوں سے میری جانب دیکھا۔ دوکان میں تبدیلی بھلے نہ آئی ہو۔ لیکن ان آٹھ سالوں کے دوران میرے وجود میں نمایاں تبدیلی واقع ہوئی تھی۔ قد کاٹھ نکل آیا تھا ۔ چہرے کی معصومیت کے بجائے سنجیدگی اور بردباری نے جگہ لے لی تھی ۔ چہرے کے خطوط بھی تقریباً تبدیل ہو چکے ہونگے۔ میں نے مسکراتے ہوئے اپنا تعارف کروایا چچا کے ماتھے پر سوچ کی لکیریں نمودار ہوئیں۔ پھر ان لکیروں کی جگہ فکر انگیز لکیریں نمودار ہوئیں ۔ اور وہ سپاٹ لہجے میں بولے۔
میں نوکر کو تمہارے ہمراہ کر دیتا ہوں ۔ وہ تمہیں گھر لے جائے گا۔ ان کی سرد مہری نے میری ان امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ جن کی توقع میں میں اپنا گھر بار بیچ کر چھوٹے سے پہاڑی گاؤں کی جانب کھنچا چلا آیا تھا۔ مجھے اپنے اقدام پر ندامت محسوس ہونے لگی اور میں بو جھل قدموں کے ساتھ نوکر کے ہمراہ گھر کی جانب چل دیا ۔ پھوپھی کا گھر گاؤں کے پاس سرسبز کھیتوں کے سامنے بنا ہوا تھا۔ بچپن میں میں نین تارا کے ساتھ تمام دن ان کھیتوں میں آنکھ مچولی کھیلا کرتا تھا ۔ وہ گندم کی فصل کے درمیان چھپ جایا کرتی تھی۔ اور میں اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈتا رہتا تھا۔ اکثر ڈھونڈ لیتا تھا۔ لیکن زیادہ تر نا کامی حصے میں آتی تھی گھر کا دروازہ پھو پھی نے کھولا ۔ کچھ دیر ٹکٹکی باندھے میری جانب دیکھتی رہیں۔ پھر چہرے کے تاثرات میں تبدیلی واقع ہوئی ۔ حیرت و استجاب نے سوالیہ نگاہوں کی جگہ لی۔ پھر بے اختیار پھوپھی میرے ساتھ لپٹتی چلی گئیں ۔
گئیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اور وہ پیار سے بولیں۔
ناصر میرے بچے تمہاری شکل و صورت بھائی صاحب سے مشابہت رکھتی ہے۔ پہلی نظر میں مجھے یوں گمان ہوا۔ جیسے بھائی صاحب سامنے کھڑے ہوں آؤ اندر آجاؤ ۔ انہوں نے راستہ چھوڑتے ہوئے کہا اور میں بے چین قدموں کے ساتھ گھر میں داخل ہو گیا کمرے میں بٹھانے کے بعد پھوپھی میرے لئے کھانے پینے کا بندو بست کرنے باورچی خانے کی جانب چل دیں۔ بارش کا زور ٹوٹ چکا تھا ۔ لیکن بوندا باندی اب بھی ہو رہی تھی۔ کمرے میں داخل ہونے کے
بعد سے اب تک نا جانے کیوں مجھے ایسا محسوس = ہو رہا تھا۔ جیسے کوئی مجھے گھور گھور کر دیکھ رہا ہو۔ میں نے " کمرے میں نگاہ دوڑائی - کمرہ مختصر سامان سے مزین تھا زمین پر دری بچھی ہوئی تھی ۔ پر چھتی پر اسٹیل کے -برتنوں کے علاوہ گلدان اور تبت پاؤڈر وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں چار پائی دھری ہوئی تھی ۔ جس پر چادر بچھی ہوئی تھی۔ اچانک میری نگاہ دروازے کی جانب اٹھی ۔ اور میں نے اسے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھ لیا ۔ کیا وہ نین تارا تھی ۔ یا پھر گھر کی کوئی ملازمہ میں اندازہ نہیں لگا پایا۔ لیکن بحر حال وہاں کوئی موجود ضرور تھا۔ اب نہیں تھا۔ میں پھرتی کے ساتھ اٹھ کر دروازے کے پاس آکھڑا ہوا ۔ پھر میں نے دروازے کے ساتھ کان لگا دیئے۔ زنانہ کپڑوں کی سر سراہٹ سن کر میرے لبوں پر خفیف مسکراہٹ پھیلنے لگی۔ اور میں نے جھٹکے کے ساتھ دروازے کا چوپٹ کھول دیا ۔ وہ دروازے کے سامنے کھڑی حیرت بھری نگاہوں کے ساتھ میری جانب دیکھ رہی تھی۔ بے انتہا خوبصورتی کا مجموعہ سروقد آنکھیں جھیل کی مانند اور ہونٹ سیب کی پتلی کاشوں کی طرح میں سب کچھ بھول بھال کر ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتا چلا گیا میری نگاہوں کی تپش سے گھبرا کر اس نے جسم پر موجود چادر کو درست کیا ۔ پھر کسی ہرنی کی مانند قلانچیں بھرتی ہوئی سامنے موجود کمروں کی جانب بھاگتی چلی گئی۔ پھوپھی باورچی خانے سے نکل کر کمرے کی جانب آ رہی تھیں۔ وہ عجلت میں بھاگتے ہوئے انہیں نہیں دیکھ پائی۔ اور ٹکرا کر زمین پر گرتے گرتے بچی۔ پھوپھی نے جھنجھلائے ہوئے لہجے میں اسے برا بھلا کہا۔ پھر جب ان کی نگاہ مجھ پر پڑی ۔ تب وہ مسکراتے ہوئے میری جانب چلی آئیں۔ اور معنی خیز لہجے میں ہمکلام ہوئیں۔
وه نین تارا ہے۔ تمہاری منگیتر بچپن سے تمہارے نام کے ساتھ منسوب مجھے یقین ہے۔ کہ بھائی صاحب نے تمہیں نین تارا کے متعلق بتایا ہی ہوگا اگر نہیں تو کان کھول کر سن لو۔ میں جلد از جلد اس فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتی ہوں ۔ اگر تمہیں کوئی اعتراض ہو۔ تو رات کو اپنے پھوپھا کے سامنے بیان کر دینا ۔ بصورت دیگر بندھن میں بندھنے کے لئے تیار ہو جاؤ ۔ انہوں نے مختصر وقت کے لئے گفتگو کا سلسلہ منقطع کیا۔ پھر دوبارہ ہمکلام ہوئیں۔
تمہارے لئے پانی کا بندو بست کر دیا ہے۔
نہا دھو کر سفر کی تھکن اتار لو ۔ چھ بجنے والے ہیں یہ تمہارے پھوپھا رات کو آٹھ بجے تک دکان بند کر کے آتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق سوچنے کے لئے اتنا وقت کافی ہے ۔ میری زبان جیسے گنگ ہو کر رہ گئی تھی۔ اس لئے جواب نہیں دے پایا۔ اور خاموشی کے ساتھ غسل خانے کی جانب چل دیا۔
رات کے کھانے پر پھوپھا اور پھوپھی کے علاوہ نین تارا بھی موجود تھی ۔ کھانا نہایت خاموشی کے ساتھ تناول کیا گیا ۔ کمرے میں عجب قسم کی بے چینی کا دور دورہ تھا۔ پھوپھا کا سرد مہرانہ رویہ اب بھی برقرار تھا۔ انہوں نے سوائے والد صاحب کی وفات پر تاسف و افسوس کرنے کے علاوہ مزید بات چیت سے پر ہیز کیا۔ کھانا ختم کرنے کے بعد پھوپھی نے سر کے اشارے سے نین تارا کو کمرے سے باہر جانے کا اشارہ کیا۔ اور خود برتن سمیٹنے لگیں۔ نین تارا نے شرارت بھری نگاہوں سے میری جانب دیکھا۔ پھر اٹھلاتے ہوئے قدموں کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئی۔ تب پھو پھی بولیں ۔
میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں ۔ نین تارا کے متعلق؟
پھو پھانے جیب میں سے بیڑی اور ماچس نکالی پھر بیڑی سلگاتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بولی۔ آج دکان میں کام بہت زیادہ تھا ۔ میرا جسم تھک کر چکنا چور ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت کسی بھی گھمبیر موضوع پر بات چیت کرنے کے قابل نہیں ہوں ۔ پھر کبھی سہی۔ انہوں نے بات چیت ختم کی۔ اور اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئے ۔ میں نے شرمندہ نگاہوں سے پھوپھی کی جانب دیکھا۔ ان کے چہرے پر بھی
افسوس و اغلال کی کفت نمایاں تھی۔ پھر مسکراتے ہوئے بولیں۔
تمہارے پھوپھا تمام دن کام کی بدولت تھک جاتے ہیں۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔ اس وقت موضوع نہیں چھیڑنا چاہئے تھا۔ بحر حال جمعے کو بات کروں گی۔ جمعے والے دن دکان بند رہتی ہے۔ اور تمہارے پھوپھا تمام دن گھر پر ہوتے ہیں ۔ یوں بات چیت ہوتے ہوتے رہ گئی۔
دوسرے دن پھوپھا کے دکان جانے کے بعد پھوپھی بھی برقعہ پہن کر سودا سلف لینے بازار چلی گئیں۔ میں ان کے ارادوں سے بخوبی باخبر تھا۔ انہوں نے ایسا کر کے ہم دونوں کو تنہائی میں بات چیت کرنے کا موقع فراہم کیا تھا ۔ تاکہ ہم مستقبل کے متعلق بات چیت کرسکیں ۔ نین تارا چھت پر کپڑے سوکھنے کے لئے ڈال رہی تھی ۔ موقع اچھا تھا میں بھی چھت پر جا پہنچا۔ چار دیواری کے دوسرے جانب سرسبز کھیتوں کا لامتناہی سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ اینٹوں کے بھٹوں سے سیاہ دھواں آ کر آسمان کی وسعتوں میں تحلیل ہو رہا تھا۔ کھیتوں سے کچھ ہٹ کر درختوں کا وہ جھنڈ موجود تھا۔ جہاں بچپن میں نین تارا چھپ جایا کرتی تھی۔ پھر میری لاکھوں کوششوں کے باوجود بھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ میں نے نین تارا کی جانب بڑھتے ہوئے کہا۔
"مجھے بچپن کے دن آج تک نہیں بھول پائے کتنے خوبصورت اور بے فکری کے دن تھے ۔ تمہارا اچانک چھپ جانا اور پھر نمودار ہو جانا۔ میرا کھیتوں میں بھاگتے پھرنا کیا تم ان دنوں کو یاد کرتی ہو ۔ یا پھر بھول گئی ہو؟ نین تارا کے چہرے پر اچانک ہی گھمبیر اداسی کے تاثرات نمایاں ہونے لگے۔ پھر وہ پریشان لہجے میں بولی۔
ابا جان میری بات چیت جاگیردار کے لڑکے کے ساتھ طے کر چکے ہیں۔ امی کو کچھ بھی معلوم نہیں ہے لیکن میں نے چھپ کر جاگیردار اور ابا جان کی بات چیت سن لی ہے۔ میں ایسا نہیں چاہتی۔ لیکن میرے یا
پھر امی کے چاہنے سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ہمارے گھر میں ہمیشہ سے وہی ہوتا رہا ہے جو ابا جان چاہتے ہیں ۔ میں ہکا بکا اس کے چہرے کی جانب دیکھتا جا رہا تھا۔ پھر ہڑ بڑا کر بولا۔
میں پھوپھا کے رویے کو دیکھ کر کچھ کچھ اندازہ لگا چکا ہوں۔ لیکن بات چیت کرنے کی ہمت نہیں ہو پائی ۔ اس کے علاوہ میں تمہارے ارادوں سے بھی بے خبر تھا اس لئے بھی میں نے بات چیت کرنا مناسب نہیں جانا اب میرے خیال کے مطابق مجھے کھل کر بات چیت کا آغاز کر دینا چاہئے۔ میں تمہیں کسی بھی صورت کھونا نہیں چاہتا۔ نین تارا نے جواب دیئے بغیر سر جھکا لیا۔
پھر جمعہ بھی آگیا ۔ حسب دستور رات کا کھانا کھانے کے بعد پھو پھی نے موضوع چھیڑنے کے لئے لفظوں کا انتخاب کیا۔ اور گھمبیر لہجے میں بولیں۔
میں نین تارا کے متعلق بات کرنا چاہتی ہوں پھوپھا بیڑی سلگھاتے ہوئے بولے۔
بات تو میں نے بھی کرنی ہے اور پھر بھی عجیب اتفاق ہے کہ بات کا موضوع نین تارا ہی ہے۔ میں جلد از جلد اپنے فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتا ہوں ۔ دو تین رشتے میری نگاہوں میں ہیں ۔ لیکن اگر وہ بات چیت آگے بڑھاتے تب بات بنتی جاگیردار کا لڑکا عقل الحق بی۔ اے پاس کر چکا ہے۔ جاگیردار بہت عرصے سے میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ میں ہاں ناں میں ٹالتا رہا لیکن اب ٹالنا ممکن نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر رشتہ نہیں دیا ۔ تب دکان خالی کر دو۔ تم خود سوچو اگر دکان نہیں کھولی۔ تب ہم کھائیں گے کہاں سے ... اس کے علاوہ میں نے تمہیں بتایا نہیں۔ کہ کم و بیش پچیس ہزار روپے جاگیردار کا مقروض ہوں ۔ وہ
رشتہ نہ دینے کے بعد مطالبہ کرے گا کہ قرضہ فوری طور پر واپس کر دو میں تو لٹ جاؤنگا ۔ اس لئے میں نے کل رات ہاں کر دی۔
مجھے اپنے سر پر پہاڑ ٹوٹتا محسوس ہوا۔ قدرت کی ستم ظریفی ۔۔۔۔۔۔میری محبت کا روبار کی بھینٹ چڑھنے لگی۔
تھی۔ میری جیب میں لگ بھگ پندرہ ہزار روپے کی معمولی رقم موجود تھی۔ میں پھوپھا کو دے سکتا تھا۔ لیکن ان کی جدی پشتی دکان کو جاگیردار کی بھینٹ چڑھنے سے روکنا میرے اختیار سے باہر تھا۔ پھوپھی کے چہرے پر زلزلے کے آثار نمایاں تھے ۔ کمرے کے دروازے کے پیچھے نین تارا بھی شاید پتھر کے بت کی صورت اختیار کر چکی تھی۔ کمرہ گھمبیر خاموشی کی لپیٹ میں تھا۔ -پھو پھانے دوبارہ خاموشی کو توڑا۔ اور اس دفعہ مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے۔۔۔
مجھے معلوم ہے کہ ایسا کرنا تمہارے ساتھ زیادتی کرنے کے مترادف ہوگا۔ لیکن میں کیا کروں مجبور ہوں۔ دکان چھوڑنا میرے اختیار سے باہر ہے۔ نین تارا بچپن میں ہی تمہارے نام کے ساتھ منسوب کر دی گئی تھی ۔ اب بات کو ختم کرنا نا انصافی والی بات -ہے۔ لیکن میں اپنی مجبوریاں تمہارے سامنے بیان کر چکا ہوں ۔ اگر تمہارے دل میں اب بھی کسی قسم کی رنجش موجود ہے۔ تو میں ہاتھ جوڑ کر تم سے معافی مانگنے کے لئے بھی تیار ہوں ۔ “ پھو پھانے دونوں ہاتھ میرے آگے جوڑ دیئے۔ میں نے بے اختیار ان کے دونوں ہاتھوں کو تھام لیا۔ پھر بھرائے ہوئے لہجے میں بولا۔
آپ میرے والدین کی جگہ ہیں ۔ اور والدین کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کے مستقبل کے متعلق فیصلہ کر سکیں ۔ ہاتھ جوڑنا انہیں زیب نہیں دیتا ۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا ۔ اور پندرہ ہزار روپے کی وہ رقم جو مکان بیچنے کے بعد دستیاب ہوئی تھی ۔ نکال کر پھوپھا کے سامنے رکھ دی۔ پھر ہمکلام ہوا۔
یہ میرے کسی کام کی نہیں ہے آپ رکھ لیں نین تارا کے بیاہ میں کام آئے گی ۔ رہی بات بچپن کی بات چیت کی تو اگر خدا کو ہی یہ رشتہ منظور نہیں تب میں یا آپ بھلا کیا کر سکتے ہیں۔ ماموں مجھے کو یت بلا رہے ہیں اور ان کا صرار ہے۔ کہ جلد از جلد کویت چلا آؤں۔ اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں کل ہی واپس شہر جانا چاہتا ہوں کہیں اس راستے میں بھی کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو جائے۔“
پھوپھی میرے ساتھ لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیں ۔ دروازے کے پیچھے کپڑوں کی خفیف سر سراہٹ پیدا ہوئی ۔ پھر سایہ سا دور جاتا محسوس ہوا۔ میں نے اپنے ارد گرد تنہائی کے سائے اٹھ تے محسوس کئے اور میں اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔
دوسرے دن دو پہر کو پھوپھا اور پھو پھی چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے۔ گاڑی اسٹیشن کی جانب آرہی تھی ۔ پھوپھی کے چہرے پر ندامت کے آثار تھے۔ وہ اپنے بھائی سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کر پائیں تھیں ۔ اور پھوپھا کے چہرے پر بے بسی اور لا چارئیت کے نقوش نمایاں تھے۔ وہ ایسا نہ کرنے کے باوجود کر رہے تھے۔ لیکن مجھے اگر فکر تھی تو صرف نین تارا کی اس نے کل رات سے کچھ بھی نہیں کھایا پیا تھا۔ پتھر کے بت کی مانند اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی اس کی ہرن کی مانند غلافی آنکھیں کھلی تو ہو ئیں تھی لیکن ان میں کسی بھی قسم کا کوئی تاثر موجود نہیں تھا ۔ گاڑی اسٹیشن پر آکر رک گئی۔ میں نے اپنا مختصر سامان سنبھالا اور سیٹ پر بیٹھ گیا ۔ پھوپھا نے ایک دفعہ پھر میرے ساتھ معذرت کی میں نے انہیں دلاسہ دیا ۔ گاڑی نے وسل دی اور پلیٹ فارم کو چھوڑ دیا۔ اس کے ساتھ ہی میری آنکھوں میں موجود ضبط کا بندھن بھی ٹوٹ گیا ۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ والد کی وفات کے بعد آج میں دوسری دفعہ اپنے آپ کو اکیلا محسوس کر رہا تھا۔ سب کچھ کھو گیا تھا سب کچھ لٹ گیا تھا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
دوسرا حصہ پڑھیں یہاں کلک کریں