تھانے کی فائل 2 میں بھی یہ نام لکھا ہوا تھا اس شخص کو شنکر داس نے شامل تفتیش کیا تھا اور تین دن تھانے میں ہی رکھا تھا انسپیکٹر کلارک نے تھانے میں شنکردار سے پوچھا تھا کہ اس امجد کو کیوں شامل تفتیش کیا۔مجھے اس پر شک تھا شنکر داس نے جواب دیا تھا اس نے مقتل کو مسلمان کیا ہوگا اور پھر مقتولہ واپس اپنے مذہب عیسائیت میں انا چاہتی ہوگی اور اس امجد نے اسے قتل کروایا یا کر دیا ہوگا۔شنکر داس بڑی ہی غلط بات کہہ رہا تھا ہم نے مقتولہ کا سروس کارڈ دیکھا تو اس پر اس کا نام روبینہ مریم لکھا ہوا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ سچے دل سے مسلمان ہو چکی تھی اور اس نے اپنے کارڈ میں بھی اپنا نام تبدیل کروا لیا تھا یہ ہمیں ایئر ہیڈ کوارٹر میں پولیس کے ونگ کمانڈر نے بتا دیا تھا کہ فلائٹ لیفٹی نیٹ امجد کو ایئر فورس پولیس نے تھانے سے رہائی دلوائی تھی۔
"وہ کسی کے ہاتھ نہیں اتی تھی"
لاش کی تفصیلات یہ تھی کہ مقتولہ کے سر میں دائیں کن پٹی سے گولی ماری گئی جو بائیں طرف سے نکل گئی تھی یہ اشاریہ 22 پستول کی گولی تھی بالوں میں خون جمع ہوا تھا اور بال جھڑ گئے تھے بلاؤز بھی خون سے بھرا ہوا تھا۔جسم پر بھی خون تھا لیکن بوری کے ساتھ کوئی نہیں تھا اس سے پتہ چلتا تھا کہ مقتولہ کو کہیں اور گولی ماری گئی اور پھر اسے بوری میں بند کر کے ریس کورس کے میدان میں پھینک گئے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ابرو ریزی صاف لکھی تھی اور موت کا وقت ساڑھے اور 11 بجے رات کے درمیان لکھا گیا تھا۔مجھے خیال ایا کہ قتل کا باعث ابرو ریزی ہی ہو سکتا ہے مقتولہ کے ساتھ یہ جرم جبری طور پر کیا گیا ہوگا اور مجرم نے قتل کر دینا مناسب سمجھا ہوگا انسپیکٹر کلاک نے اس شک کا اظہار کیا کہ مقتولہ کے ساتھ جبری زیادتی نہیں ہوئی یہ اپنے کسی اشنا کے ساتھ پکڑی گئی اور پکڑنے والا اس کا منگیتر ہوگا یا کوئی دوست حس نے فوری اشتعال میں ا کر اسے گولی مار دی۔میں نے کنارے کے ساتھ اتفاق نہ کیا کیونکہ مقتولہ جس کلاس سے تعلق رکھتی تھی اور ان دونوں جو ماحول بنا ہوا تھا اس میں عورت کے معاملے میں اتنا جذباتی کوئی نہیں ہوتا تھا ویکائیوں کی دوستیاں لگتی اور ٹوٹتی رہتی "تھی تم نہیں اور صحیح"والی دوستیاں چلتی تھیں ایک لڑکی کے ایک سے زیادہ دوست ہوا کرتے تھے سب سے اچھا دوست وہ ہوتا تھا جو سب سے زیادہ عشق کرواتا تھا زیادہ قیمتی تحفے دیتا تھا۔پھر یوں ہوا کی شنکر داس نے ایئر ہیڈ کوارٹر کو فون کیا کہ فلاں نامی لڑکی کی لاش فلاں جگہ سے ملی ہے اور اس گھر کے گھر والوں کو اطلاع دی جائے۔تھانے کی اس اطلاع پر ایئر فورس پولیس کا ایک افسر اور دو سار جنٹ تھانے پہنچ گئے جس شعبے میں مقتولہ کام کرتی تھی وہاں اس کے گھر کا ایڈریس تو تھا لیکن اس کے گھر فون نہیں تھا کسی کو وہاں مبتلا کے منگیتر کے دفتر کا فون نمبر معلوم تھا اس نے منگیتر کو اطلاع دی اور مانگے تر مقتل کے گھر دوڑا وہاں یہ خبر سنائی اس طرح مقتل کا باپ ماں اور منگیتر تھانے پہنچ گئے۔ان لوگوں نے لاش اس وقت دیکھی جب پوسٹ مارٹم کے بعد تھانے واپس گئی تھی اگر مقتل کے ماں باپ لاش کو پوسٹ مارٹم سے پہلے دیکھ لیتے تو وہ بے ہوش ہو جاتے کیونکہ لاش کو لہو سے دوہری کی ہوئی تھی یہ نہیں لاش کی ٹانگیں اوپر والے دھڑ کے ساتھ ملی ہوئی تھی اور پاؤں سر کے ساتھ تھے اس کے علاوہ نیچے سے لاش برہنہ تھی پوسٹ مارٹم میں ڈاکٹر نے ٹانگیں کولھوں سے کاٹ کر سیدھی رکھ دی تھی اور اوپر چادر ڈال دی تھی اس طرح لگتا تھا جس سے مقتولہ کے جسمانی پوزیشن قدرتی ہو یہ پتہ چلتا ہی نہیں تھا کہ لاش دو ٹکڑوں میں کاٹی ہوئی ہے۔
انہوں نے لاش شناخت کر لی باپ نے سب انسپیکٹر شنکر داس کو بتایا کہ اس کی بیٹی کا اثر نام تو مار تھا تھا ۔مارتا ولیم لیکن 12 14 روز پہلے وہ مسلمان ہو گئی تھی اور اس نے اپنا نام روبینہ مریم رکھ لیا تھا باپ نے یہ بھی بتایا کہ مارتا گھر نہیں رہتی تھی بلکہ اس نے اپنی رائےش ویکائیوں کی بارک میں رکھی ہوئی تھیں ۔
ہفتے کی شام گھر اتی اور اتوار کی شام چلی جاتی تھی اس ہفتے شام بھی وہ ائی تھی اور اتوار کی شام چلی گئی تھی وہ یعنی باپ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی بیٹی اپنے ٹھکانے پر پہنچی ہی نہیں ہوگی اگلے روز یعنی سوموار کے دن جس دن وہ تھانے میں یہ بیان دے رہا تھا اس کی بیٹی کا منگیتر سخت گھبراہٹ کی کیفیت میں اس کے گھر ایا اور بتایا کہ مارتا کی لاش تھانے پڑی ہے اسے کسی نے قتل کر دیا ہے اس اطلاع پر باپ تھانے پہنچ گیا۔یہ کہانی پڑھتے وقت یہ خیال رکھیں کہ مقتولہ کا باپ یا کوئی بھی عیسائی اس کے متعلق کوئی بھی بات بتاتا یہاں بیان کرتا تو اسے وہ مارتا کہتا تھا لیکن میں اسے ربنا ہی لکھوں گا ایف ائی ار میں بھی اس کا نام مارتا ولیم لکھوایا گیا تھا میں نے اس کا سروس کارڈ یا شناختی کارڈ دیکھا تھا جس پر اس کا نام روبینہ مریم لکھا ہوا تھا اس طرح یہ اس کا سرکاری نام بن گیا تھا اور میں چونکہ مسلمان تھا اور پہلے بھی تفتیش کے دوران جہاں بھی اس کا نام لکھتا یا بولنا پڑتا تو میں ربنا ہی لگتا اور بولتا رہا تھا۔یہ تو ہوئی واردات کی وہ تفصیل جو ہمیں سب انسپیکٹر پنڈت شنکر داس نے سنائی تھی میں نے اور انسپیکٹر کلارک نے تفتیش از سر نو کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا
ہمارے لیے سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ واردات کو 15 16 دن گزر گئے تھے ہم نے شنکر داس سے کہا کہ مقتولہ کے باپ اور منگیتر کو کل صبح سی ائی اے ہیڈ کوارٹر میں بھیج دے ہم تھانے سے نکلے تو چار بج چکے تھے انسپیکٹر کلارک نے کہا کہ اس وقت تمام وکائیاں اپنی بارک میں ہو گی بہتر ہے وہاں سے مقتولہ کے متعلق کچھ معلومات لی جائیں ۔تجویز اچھی تھی ہم وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے جیپ میں بیٹھے اور وہاں جا پہنچے میں جسے بارک کہہ رہا ہوں اسے فوجی زبان میں ڈومسٹک کیمپ کہا جاتا تھا وہاں جا کر دیکھا ارد گرد دیوار تھی اور اس کے اندر ایک دوسری سے دور دور تین بارکیں اور ایک قطار کمروں کی تھی وسیع لان ٹینس کورٹ اور ہے بیڈ مینٹن کورٹ بھی بنے ہوئے تھے۔گیٹ بند تھا ہمیں بتایا گیا کہ قریب ہی ایک بنگلے میں ایک انگریز عورت رہتی ہے جس کا رینک لیفٹیننٹ کرنل تھا کیمپ کے اندر جانے کے لیے اس عورت کے اجازت ضروری تھی ہم اس بنگلے میں چلے گئے انگریز لیفٹیننٹ کرنل نے بڑی خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا اور جب ہم نے اپنا تعارف کرایا تو وہ اور زیادہ عزت و احترام سے پیش ائی میں اس لڑکی کے قاتل کو پھانسی کے راستے سے لٹکتا دیکھنا چاہتی ہوں اس لیفٹینیٹ کرنل نے کہا بڑی پیاری اور اپنے کام میں ماہر لڑکی تھی میں مارتھا کو کبھی نہیں بھول سکوں گی میں نے انگریز عورت کا ذہن پڑنے کے لیے کہا سنا ہے مقتولہ مسلمان ہو گئی تھی
کمرہ نمبر 302 اور 500 سال پرانی قبر کا خوفناک راز – دو سچی ہارر کہانیاں" --- 2 خوفناک کہانیاں ☠️ "کمرہ نمبر 3…
byNest of Novels June 23, 2025
JSON Variables
Welcome to Nest of Novels! Here, you'll find a collection of captivating Urdu novels, stories, horror tales, and moral stories. Stay tuned for the latest updates and new releases!
Awesome
ReplyDelete